ہوا کے ہلکے جھونکے درختوں کے پتوں سے سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے۔ سورج افق پر ڈوب رہا تھا، اور آسمان پر سنہری اور نارنجی رنگوں کا امتزاج ایک دلکش نظارہ پیش کر رہا تھا۔ لیکن اس خوبصورت منظر کے باوجود، احمد کے دل میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔ وہ پارک کی بینچ پر بیٹھا تھا، اور اس کی آنکھوں میں گزرے لمحوں کی یادیں تیر رہی تھیں۔
یہ ایک اداس شام تھی، جس نے احمد کو ماضی کی گہری کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ کبھی یہی پارک اس کی محبوبہ زینب کے ساتھ گزرے خوشگوار لمحات کی گواہ تھا۔ آج وہی جگہ اس کے لیے ایک خالی پن کا احساس دلانے لگی تھی۔ ہر چیز وہی تھی—درخت، ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹ—لیکن زینب نہیں تھی۔
احمد نے اپنی جیب سے ایک پرانا خط نکالا۔ یہ زینب کا آخری خط تھا، جس میں اس نے لکھا تھا: “احمد، کبھی کبھی محبت ہی کافی نہیں ہوتی۔” یہ الفاظ اس کے دل میں خنجر کی طرح چبھ رہے تھے۔
ایک اداس شام نے اسے اپنی بے چینی کے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا زندگی دوبارہ کبھی روشن ہو پائے گی؟ کیا وہ کبھی زینب کو بھول پائے گا؟
اچانک، ایک بچی کا قہقہہ اس کی سوچوں میں دراڑ ڈال گیا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس کی معصوم مسکراہٹ نے احمد کو یہ احساس دلایا کہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہر اداس شام کے بعد ایک نئی صبح ضرور آتی ہے۔
احمد نے گہری سانس لی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ شاید اب وقت آ گیا تھا کہ وہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھے۔
کیا آپ نے کبھی ایسی اداس شام کا تجربہ کیا ہے؟ اپنے خیالات ہمارے ساتھ شیئر کریں!